شاعری



تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میرے تخیّل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے عارض تیرے ہونٹ
کیسی معصوم انجانی سی خطا کرتے ہیں
تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تناؤ
جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے
وہ چھلکتے ہوئے ساغر سی جوانی وہ بدن
جیسے شعلہ سا نگاہوں میں لپک کر رہ جائے
خِلوت بزم ہو یا جلوت تنہائی
تیرا پیکر میری نظروں میں اتر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو آپ قدم ٹھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہیں تو نے پکارا تو نہیں
گم سی ہو جاتی ہیں نظریں تو خیال آتا ہے
اس میں پنہاں تیری آنکھوں کا اشارہ تو نہیں
دھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاں جس دم
تیری زلفیں میرے شانوں پر بکھر جاتی ہیں
تھک کے سر جب کسی پتھر پہ ٹِکا دیتا ہوں
تیری بانہیں میری گردن میں اتر آتی ہیں
آنکھ لگتی ہے تو دل کو یہ گماں ہوتا ہے
سرِ بالیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے الجھے ہوئے بالوں میں کوئی
انگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
جانے کیوں تجھ سے دلِ زار کو اتنی ہے لگن
کیسی کیسی نا تمناؤں کی تمہید ہے تو
دن میں تو اک شب ماہتاب ہے میری خاطر
سرد راتوں میں میرے واسطے خورشید ہے تو
اپنی دیوانگئی شوق پہ ہنستا بھی ہوں میں
اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا ہوں
تجھ کو اپنانے کی ہمت ہے نہ کھو دینے کا ظرف
کبھی ہنستے کبھی روتے ہوئے سو جاتا ہوں
کس کو معلوم میرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے میرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ بھی لوں اگر اس کو محبت کا جنوں
تجھ کو اس عشق جنوں خیز سے نسبت کیا ہے
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو نہ ہو گا معلوم
تیرے چہرے کے سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میرے تخیّل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے عارض تیرے ہونٹ
کیسی معصوم انجانی سی خطا کرتے ہیں

حمایت علی