08 May 2012

اسمبلی سے ن لیگ کا استعفیٰ : فائدے میں کون رہے گا؟

0 comments


توہین عدالت کیس میں موجودہ وزیر اعظم نہ صرف مجرم قرار پائے بلکہ 30 سیکنڈ کی سزا کاٹنے کے بعد سزا یافتہ مجرم کا مقام "عالیشان" حاصل کر لیا جس پر وہ فخر کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ کیا جرم ثابت ہونے اور سزا کاٹنے کے بعد وہ وزیر اعظم رہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں رہ سکتے تو ان کو ہٹانے کا آئینی طریقہ کیا ہو گا ؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات ہر خاص و عام کے ذہن میں ہیں لیکن یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں۔

اس فیصلے کے بعد غیر حکومتی سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن پی پی اور اس کی حکومت استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ ان کا وزارت عظمیٰ کے عہدے پربرقرار رہنا آئین کے مطابق بالکل درست ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عمران اور نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کرنے سے پہلے آئیں پڑھ لیں۔ اس ہٹ دھرمی کے خلاف ساری ہی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں اور مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن یہ احتجاج کسی مشترکہ کاوش کے طور پر نہیں بلکہ اپنی اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر کیا جا رہا ہے حالانکہ ایسے قومی مسائل پر متفقہ رد عمل وقت کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔

ایسے حالات میں عمران خان نے کہا ہے کہ ن لیگ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے تو حکومت مخالف تحریک پر بات ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا صرف بات ہو سکتی ہے یا اتحاد بھی ہو سکتا ہے؟ جہاں تک میری ناقص رائے ہے عمران خان کم از کم نواز شریف سے اتحاد کرنے والا نہیں ۔ اور اس کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو نیچا دکھانے کے لیے پی پی کو فائدہ دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

ن لیگ کو اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا مشورہ صرف عمران خان نے ہی نہیں دیا بلکہ وزیر اعظم گیلانی نے بھی کہا ہے کہ "اگر ن لیگ میں ہمت ہے تو استعفیٰ دے دے ہم ضمنی انتخابات کروا لیں گے"

اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ کا استعفیٰ دینے سے کیا فائدہ ہو گا؟ کیا حکومت ختم ہو جائے گی؟ کیا نئے انتخابات ہو جائیں گے؟

بالفرض اگر حکومت گرتی ہے تو یہ پی پی کے لیے سیاسی شہادت سے کم نہ ہو گا اور موجودہ حالات میں پی پی کو اس شہادت کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ آئندہ انتخابات میں عوام سے ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس بظاہر اور کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کبھی فوج سے، کبھی عدلیہ سے اور کبھی اپوزیشن سے سینگ پھنسائی کا کام کرتی رہتی ہے۔

اور اگر حکومت نہیں گرتی تو نئے انتخابات کے بجائے ضمنی انتخابات ہوں گے جس کا اظہار گیلانی صاحب اپنے مذکورہ بالا بیان میں کر چکے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد صورتحال کیا ہو گی اور ان انتخابات کے نتائج میں ملکی حوالے سے کون سے مضمرات ہو سکتے ہیں۔

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ اگر ن لیگ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیتی ہے تو پھر پی پی کے تحت ہونے والے ضمنی الیکشن میں وہ حصہ نہیں لے گی۔ جماعت اسلامی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ضمنی انتخابات میں بغیر کسی اتحاد کے کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکے ۔ جہاں تک تعلق ہے تحریک انصاف کا تو ان کا ضمنی الیکشن کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا اس لیے ان کی نظر نئے انتخابات پر ہے۔ اس کے بعد میدان میں صرف پی پی اور اس کے اتحادی رہ گئے جو ضمنی الیکشن میں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے۔

اس ساری صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں پی پی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لے۔ المختصر یہ کہ اس سارے معاملے میں فائدہ صرف اور صرف پی پی کا ہوگا ۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو اس کے عواقب عوام اور پاکستان کے لیے کیا ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ ہر ذی ہوش و ذی شعور شہری کو بخوبی ہو گا۔

اس تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ن لیگ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے خواتین و حضرات کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔

 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔