کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار توانائی پر ہے اور بد قسمتی سے وطن عزیز پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے توانائی کے سخت بحران کا شکار ہے جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔جو کہ آئندہ دنوں میں 7000 سے 9000 میگاواٹ تک جا سکتا ہے۔ اس بحران کی وجوہات کئی ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ طلب و رسد میں عدم توازن نیز توانائی کے موجودہ ذخائر کے استعمال کا مؤثر اور متوازن انتظام نہ ہونا ہے۔ اس وقت پاکستان بجلی اور دیگر توانائی کے حصول کے لیے جن چیزوں پر انحصار کرتا ہے ان میں لکڑی ، قدرتی گیس، پیٹرول اور کوئلہ قابل ذکر ہیں ہے۔ جبکہ جوہری توانائی اور شمسی توانائی کو وہ توجہ حاصل نہیں ہو سکی جو ان معروضی حالات میں ہونی چاہیے تھی۔ بجلی کی پیدا وار کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہے جو کہ پاکستان میں پہلے ہی نایاب ہے۔
بحرانوں سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ مختصر مدتی منصوبہ جات بہت اہم ہوتے ہیں تا کہ اگر ایک حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہو تو متبادل تلاش کیا جائے۔ اس حوالے سے بھی ہمارے ہاں فقدان نظر آتا ہے، گزشتہ حکومت نے فوری طور پر بحران پر قابو پانے کے لیے رینٹل پاور کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کئی سال تک کسی انجام کو نہ پہنچا بالآخر سپریم کورٹ کو اس پر ہمارے ارباب اختیار کی سمع خراشی کرنا پڑی۔
اس سارے بحران سے نکلنے کے لیے طلب اور رصد میں توازن، بجلی کے ضیاع کو روکنے کے لیے مؤثر حکمت عملی، شارٹ فال کو کم کرنے کے لیے نئے افق کی جانب پیش قدمی اور بطور خاص بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کے بجائے کوئلے پر انحصار کو بڑھانا پڑے گا جس کی وافر مقدار وطن عزیز میں موجود ہے۔ نیز تیل کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کر کے عوام کو مہنگائی کے شکنجے میں مزید جکڑنے سے بہتر ہے کہ چین اور ایران کی جانب سے سستی توانائی کی فراہمی کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔
موجودہ اور پچھلی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے آج ہمارا ملک بحرانوں کا شکار ہے اللہ ان سب کو عقل سلیم عطا کرے اور ہمارے ملک پر اللہ تعالی اپنی خاص رحمت فرمائے (آمین)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بحرانوں کے پیچھے وسائل کی کمی سے زیادہ ہماری نا اہلی ہے۔ نا اہلی کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات پر ملکی اور قومی مفادات کو قربان کرنے کی عادت جو ہمارے حکمران طبقے کے خمیر کا حصہ ہے اس نے بھی ملک کے استحکام، سالمیت، معیشت، امن و امان کے حوالے سے سخت نقصان پہنچایا ہے